تحریر: عارف بلتستانی
حوزہ نیوز ایجنسی| خدا نے انسان کو آزاد خلق کر کے اسے عدل و انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ عدل و انصاف کی خواہش انسان کی فطرت کا جزو لاینفک ہے۔ جہاں ظلم و زیادتی اوج پر ہوگی وہاں عدل و انصاف کی طلب اور تڑپ کا احساس بھی زیادہ ہو گا ۔یہی احساس بہت سی تحریکوں کو جنم دیتا ہے کیونکہ انسانی فطرت ہمیشہ انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی حاکمیت چاہتی ہے۔ اظہر من الشمس ہے کہ فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
انہیں انسانی اقدار اور حق و حقانیت کی حاکمیت کی خاطر حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اپنے خون کے ذریعے انسان کو بیدار کیا کہ اٹھو اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہو۔ یہ مختصر قیام، ایک طرف تمام انسانی اقدار کی تجلی اور مظہر صفات خداوندی ہے۔اس کی دوسری جانب ظلم و بر بریت اور شقاوت سے لبالب یزیدیت جلوہ گر ہے کیونکہ کربلا اقدار کی جنگ ہے۔
قیامِ کربلا کے وجود میں آنے کا سبب، انسانی اقدار اورحق و حقانیت کی پامالی تھی۔ اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:“کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہاہے؟ میں اس لیے خروج کر رہا ہوں تاکہ امر بالمعروف کے ذریعے اپنے جد امجد اور اپنے پدر نامدار کی سیرت کا احیاء کروں۔” ان کی سیرت بھی یہی تھی کہ انسان کو جہالت کی ظلمتوں سے نکال کر فطرت اور حق و حقانیت کے خورشید سے ملائیں۔
دوسرے الفاظ میں قیام کربلا کا مقصد اسلامی تہذیب و تمدن کی تعمیر نو تھی جس کےلیے امام حسین علیہ السلام اور آپ کے پاک اصحاب نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی نیز حضرت امام سجاد اور حضرت زینب علیہما السلام نے قید و بند اور اسیری کی صعوبتیں جھیلیں ۔
کربلا مہدویت کی تمہید ہے اور اربعین ِحسینی ظہور امام کےلیے انسانوں تربیت کا گہوارہ ہے۔ اس تربیت گا ہ کا آغاز امام زین العابدین اور جناب زینب علیہما السلام کی رہبری میں عصر عاشور کے بعد ہوا اور اب تک جاری وساری ہے اور ظہور تک جاری رہے گا۔
اسی لیے ائمہ معصومین علیہم السلام نے جہاں انتظار ِفرج کو بہترین عبادت قرار دیا ہے وہاں زیارت اربعین کےلئے پیدل سفر کرنے کی بہت تاکید کی ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ فرماتے ہیں “میری امت کا بہترین عمل انتظارِ ظہور ہے۔’’
محمد بن فضیل کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے انتظار فرج کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:” خداوند متعال فرماتا ہے:
“وَانۡتَظِرُوا۔ اِنَّامُنۡتَظِرُوۡنَ۔ تم انتظارکرو،ہم بھی انتظار کریں گے۔
بشير دہّان کہتے ہیں: " امام صادق (عليہ السلام)اپنے شیعوں کی ایک جماعت کے ساتھ حيره میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے بشير! کیا تو نے اس سال حج کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ پر قربان ہوجاؤں ، نہیں کیا۔ لیکن میں عرفہ کے دن قبر حسين کے پاس موجود تھا۔ فرمایا : اے بشير خدا کی قسم، اصحاب مكہ کےلئے مكہ میں جو کچھ (ثواب ) تھا اس میں سے کوئی چیز تیرے ہاتھ سے نہیں گئی۔ میں نے کہا: آپ پر قربان ، وہاں عرفات کا میدان بھی تو ہے۔(پس میں ثواب میں ان کی برابری کیسے کر سکتا ہوں؟)آپ میرے لئے وضاحت فرمائیے۔
امام نےفرمایا: اے بشير جب تم میں سے کوئی شخص فرات کے پانی سے غسل کرتا ہے پھر امام حسين بن علی(علیہ السلام ) کی قبر کی سمت آپ کی کامل معرفت کے ساتھ چلتا ہے تو اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا یا رکھتا ہے سو مقبول حج اور سو مقبول عمروں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور سو جہاد جو دشمنان خدا اور دشمنان رسول کے خلاف کسی مرسل نبی کے ساتھ کیے ہوں، کا ثواب بھی اسے دیتا ہے۔ اے بشير !سنو اور اس(روایت)کو اس شخص کےلئے بیان کرو جس کا دل اسے برداشت کرسکے ۔ جو شخص عرفہ کے دن حسين (عليہ السلام )کی زيارت كرے وہ ایسا ہے گویا اس نے عرش پر اللہ کی زیارت کی ہو۔
جو شخص پیدل زیارت قبر حسین (علیہ السلام)کے لیے چلے تو اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھائے،ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کےہزار گناہ مٹا دے گا اور اس کےلئے ہزار درجات بلند فرمائے گا۔پھر فرمایا: فرات میں داخل ہو کر پہلے غسل کرو اور اپنے جوتے آویزاں کرو اور ننگے پاؤں ذلیل بندے کی طرح راہ چلو ۔
امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: جو شخص پیدل امام حسین (علیہ السلام )کی قبر کی زیارت کےلئے آتا ہے اس کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا اور رکھتاہے اللہ تعالی اس کے نامہ اعمال میں اولاد اسماعیل(علیہ السلام)میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے۔
سفر اربعین دینی اقدار اور دینی اقتدار و قوت کی حسین تجلی ہے جو ظہور کی تیاری اور آمادگی کی مشق ہے۔بنی امیہ و بنی عباس کے دورسے لے کر اب تک دشمن کی یہی کوشش رہی ہے کہ مختلف طریقوں سے اربعین کے اس پیدل سفر کو ختم کیا جائے تاکہ ان کی اقتدار کی کرسی باقی رہے۔ اس کےلئے انہوں نے کبھی زائرین کے ہاتھ قطع کیے، کبھی بم دھماکوں کے ذریعے راستہ بند کیا تو کبھی جراثیمی حملوں سے راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن انہیں کیا پتہ کہ جو شعائر الہی کو زندہ کرنے کی خاطر خدا کی راہ میں قدم بڑھاتے ہیں خدا ہمیشہ انہی کی مدد کرتا ہے۔
یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَاللّٰہِ بِاَفۡوَاھہمۡ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں جبکہ اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔
یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاھہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ
یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھانا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔
• فانوس بن کے جس کی حفاظت خدا کرے وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے*
اربعین حسینی انسانی اقدار کی تجلی گاہ ہے۔ اربعین ظہور امام زمان کی تمہید ہے۔ اربعین حسینی خدا اور اہل بیت سے اظہار ِعشق کا نام ہے۔ اربعین حسینی ایک تحریک ہے جو تمام اختلافات سے مبرا ہو کر زندہ دل انسانوں کو ایک لڑی میں پروتی ہے۔ اربعین حسینی مہدوی معاشرے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اربعین حسینی عاشقان صلح و دوستی کی میقات ہے۔ اربعین حسینی عشق و جنون کا دوسرا نام ہے۔اربعین حسینی ایک ایسی تربیت گاہ ہے جہاں سے انسان عدل و انصاف کی تلاش میں سفر شروع کرتا ہے۔ اربعین حسینی وہ یونیورسٹی ہے جہاں سے انسان خدائی بن کر آتا ہے۔
اربعین حسینی ظہور کی طرف حرکت کا نام ہے۔ اربعین کے دن دنیا بھر سے کروڑوں زندہ ضمیر لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ وہ ہوبہو کسی ماہتاب کے مانند دکھائی دیتے ہیں جو آسمان کربلا میں خورشید عشق و انسانیت کے گرد جمع ہو کر محو گردش ہو۔ یہ لوگ وقت کے حسین اور یوسف زہرا سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ اب ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ باقی ائمہ معصومین علیہم السلام لوگوں کی غفلت اور بے وفائی سے شہید ہو گئے ہیں۔
اربعین حسینی انسانیت کی خدمت , ایثار و قربانی اور فداکاری کا دن ہے۔ اس کی بہترین مثال نجف سے کربلا تک پیدل سفر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسے دیکھ کر انسان انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اتنا منظم اور وسیع ہے کہ اس میں کروڑوں انسانوں میں سے کوئی بھی بھوکا پیاسا نہیں رہتا بلکہ ہر کسی کو اپنی مرغوب و من پسند چیزیں میسر ہوتی ہیں۔ یہ کہنا بجا ہے کہ مشیٔ اربعین بہشت برین کی ایک جھلک ہے۔
انشاء اللہ اس سال ایک بار پھر پوری دنیا سے چھ ماہ کے بچے سے لے کر اسی سالہ عمر رسیدہ انسانوں تک سارے عشاق اہل بیت "لبیک یا حسین" کی صدا بلند کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ اربعین کی ثقافت اب عراق کی سرزمین سے نکل کر ایک عالمی ثقافت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ البتہ دشمن بھی اپنی تمام تر کاوشوں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں تاکہ تفرقہ بازی اور دیگر شیطانی ہتھکنڈوں کے ذریعے کے ذریعے اس عطیم انقلاب کا راستہ روکیں۔
تمام عاشقان حسینی کو اس بات کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ آپ نے بصیرت کادامن تھام کر امام سجاد اور حضرت زینب علیہما السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے تمام ناپاک عزائم کو غرق خاک کرنا ہے۔
حوالہ جات:
کمال الدین و تمام النعمہ جلد 2، باب55، ح3،4
ابن قولويہ (متوفاى367هـ)،كامل الزيارات،ص320)
کامل الزیارات134
سورہ صف آیت 8
سورہ توبہ 32